WHAT'S NEW?
Loading...

’شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں‘

PART 2 
’شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں‘
                  

                
 
طالبان نے پندرہ جنوری سے سوات میں خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے
صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں فوجی کارروائی جاری ہے۔ اگر ایک طرف سکیورٹی فورسز اور مسلح طالبان کی جھڑپوں میں درجنوں عام شہریوں کے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلح طالبان نے ایک سو تیس سے زائد سکولوں کو تباہ کرنے کی بھی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں سے زیادہ تر لڑکیوں کے ہیں۔

اب طالبان نے پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی لگادی ہے۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی ارود ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کررہی ہے۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی:


بدھ، سات جنوری: تمہیں سکول جاتے وقت خوف نہیں آتا؟


میں محرم الحرام کی چھٹیاں گزارنےاپنی فیملی کے ساتھ ضلع بونیر آئی ہوں۔ بونیر مجھےبہت پسند آیا، یہاں چاروں طرف پہاڑ اورسرسبز وادیاں ہیں۔ میرا سوات بھی تو بہت خوبصورت ہے لیکن وہاں امن جونہیں، یہاں امن بھی ہے اور سکون بھی، نہ فائرنگ کی آواز اور نہ ہی کوئی خوف۔ ہم سب گھر والے یہاں بہت خوش ہیں۔
آج پیر بابا کے مزار پر گئے تھے، وہاں لوگوں کا بہت زیادہ رش تھا۔ وہ منتیں مانگنے آئے تھے اور ہم تفریح کے لیے۔ یہاں پر چوڑیاں، جھمکے، لاکٹ وغیرہ بکتے ہیں۔ میں نے شاپنگ کرنے کا سوچا تھا مگر کچھ بھی پسند نہیں آیا۔ البتہ امی نے جھمکے اور چوڑیاں خرید لیے۔
 میں نے ایک لڑکی کو سکول جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھی۔ میں نے اسے روکا اور پوچھا تمہیں سکول جاتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ اس نے پوچھا کس سے، میں نے کہا طالبان سے، اس نے جواب دیا: ’یہاں طالبان نہیں ہیں۔‘
 
میں نے ایک لڑکی کو سکول جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ چھٹی کلاس میں پڑھتی تھی۔ میں نے اسے روکا اور پوچھا تمہیں سکول جاتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ اس نے پوچھا کس سے، میں نے کہا طالبان سے، اس نے جواب دیا: ’یہاں طالبان نہیں ہیں۔‘

جمعہ، نو جنوری: مولانا شاہ دوران چھٹی پر چلے گئے

آج میں نے سکول میں اپنی سہیلیوں کو بونیر کے سفر کے بارے میں بتایا۔انہوں نے کہا کہ تمہارے یہ قصے سنتے سنتے ہمارے کان پک جائیں گے۔ ہم نے ایف ایم چینل پر تقریر کرنے والے طالبان رہنماء مولانا شاہ دوران کی موت سے متعلق اڑائی گئی خبر پر خوب بحث کی۔انہوں نے ہی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
کچھ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ مرگئے ہیں۔کچھ نے کہا کہ، نہیں زندہ ہیں۔انہوں نے چونکہ گزشتہ رات تقریر نہیں کی تھی اسی لیے ان کی موت کی افواہ پھیلائی گئی تھی۔ایک لڑکی نے کہا کہ وہ چھٹی پر چلے گئے ہیں۔
جمعہ کو ہمارے ٹیوشن کی چھٹی ہوتی ہے اس لیے ہم آج دیرتک کھیلتے رہے۔ ابھی ابھی جونہی میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئی تو خبر آئی کہ لاہور میں دھماکے ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا یا اللہ، دنیا میں سب سے زیادہ دھماکے پاکستان میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔

بدھ، چودہ جنوری: شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں؟

آج میں سکول جاتے وقت بہت خفا تھی کیونکہ کل سے سردیوں کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹرس نےچھٹیوں کا اعلان تو کیا تو مگر مقررہ تاریخ نہیں بتائی۔ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، پہلے ہمیں ہمیشہ چھٹیوں کے ختم ہونے کی مقررہ تاریخ بتائی جاتی تھی۔اس کی وجہ تو انہوں نے نہیں بتائی لیکن میرا خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کے سبب ایسا کیا گیا ہے۔
اس بار لڑکیاں بھی چھٹیوں کے بارے میں پہلے کی طرح زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر طالبان نے اپنے اعلان پر عمل کیا تو وہ شاید سکول دوبارہ نہ آسکیں۔
 آج چونکہ سکول کا آخری دن تھا اسی لیے ہم سہیلیوں نےسکول کے گراؤنڈ میں دیر تک کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بھی یہ امید ہے کہ انشاء اللہ ہمارا سکول بند نہیں ہوگا لیکن پھر بھی نکلتے وقت میں نے سکول کی عمارت پر ایسی نظر ڈالی جیسے دوبارہ یہاں نہیں آسکوں گی۔
 

کچھ لڑکیاں پرامید تھیں کہ انشاء اللہ فروری میں سکول دوبارہ کھل جائے گا لیکن بعض ایسی بھی تھیں جنہوں نے بتایا کہ ان کے تعلیم جاری رکھنے کی خاطر ان کے ماں باپ نےسوات سے نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آج چونکہ سکول کا آخری دن تھا اسی لیے ہم سہیلیوں نےسکول کے گراؤنڈ میں دیر تک کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے بھی یہ امید ہے کہ انشاء اللہ ہمارا سکول بند نہیں ہوگا لیکن پھر بھی نکلتے وقت میں نے سکول کی عمارت پر ایسی نظر ڈالی جیسے دوبارہ یہاں نہیں آسکوں گی۔

جمعرات، پندرہ جنوری: توپوں کی گھن گرج سے بھرپور رات

پوری رات توپوں کی شدید گھن گرج تھی جس کی وجہ سے میں تین مرتبہ جاگ اٹھی۔آج ہی سے سکول کی چھٹیاں بھی شروع ہوگئی ہیں اسی لیے میں آرام سے دس بجے اٹھی۔ بعد میں میری ایک کلاس فیلو آئی جس نے میرے ساتھ ہوم ورک ڈسکس کیا۔
آج پندرہ جنوری تھی یعنی طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے سکول نہ جانے کی دھمکی کی آخری تاریخ مگر میری کلاس فیلو کچھ اس اعتماد سے ہوم ورک کر رہی ہےجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
آج میں نے مقامی اخبار میں بی بی سی پر شائع ہونے والی اپنی ڈائری بھی پڑھی۔ میری ماں کو میرا فرضی نام’گل مکئی‘ بہت پسند آیا اورابو سے کہنے لگیں کہ میرا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں رکھ لیتے۔ مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ مجھے اپنا نام اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ اسکے معنی ’غمزدہ‘ کے ہیں۔
ابو نے بتایا کہ چند دن پہلے بھی کسی نے ڈائری کی پرنٹ لیکر انہیں دکھائی تھی کہ یہ دیکھو سوات کی کسی طالبہ کی کتنی زبردست ڈائری چھپی ہوئی ہے۔ ابو نے کہا کہ میں نے مسکراتےہوئے ڈائری پر نظر ڈالی اور ڈر کے مارے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ ’ہاں یہ تو میرے بیٹی کی ہے۔

0 comments:

Post a Comment